Closure of Bolan Medical College – Is it a planned move or mere negligence?

 بولان میڈیکل کالج کی بندش کیا یہ ایک منصوبہ بندی ہے یا محض غفلت؟


بلوچستان، جہاں پہلے ہی تعلیمی سہولیات ناپید ہیں، وہاں واحد بڑا سرکاری میڈیکل کالج بولان میڈیکل کالج گزشتہ سات ماہ سے بند پڑا ہے۔ ہاسٹلز پر تالے لگے ہوئے ہیں، نئی داخلہ میرٹ لسٹ جاری نہیں ہو رہیں، کلاسز معطل ہیں، اور حکومت مسلسل خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یہ محض بدنظمی نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان کے نوجوانوں کو علم، ترقی اور روشن مستقبل سے محروم رکھنے کی سازش لگتی ہے۔


وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی اور ان کے وزیرِ تعلیم و صحت روز میڈیا پر آ کر تعلیم کے فروغ کی بات کرتے ہیں۔ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے 1500 پرائمری اسکولز کھولے، اور بچوں کو کیمبرج یونیورسٹیز بھیج رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنہیں ڈاکٹر بننا تھا، جنہوں نے دن رات محنت کر کے بلوچستان کے سب سے پرانے ادارے میں داخلہ لیا، وہ آج اپنے مستقبل سے مایوس ہیں۔


ہاسٹلز کی بندش کو ری نویشن کا نام دیا گیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مرمت کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ طلبہ کو زبردستی نکالا گیا، کمرے توڑے گئے، سامان لوٹا گیا، اور آج بھی وہ ہاسٹلز بند پڑے ہیں تاکہ ٹھیکے داری نظام سے وابستہ کرپشن کا حصہ پوری طرح تقسیم کیا جا سکے۔ وزیراعلیٰ اور وزیر صحت نے ہاسٹلز کی تالہ بندی کو اپنی دولت کے تحفظ کا ذریعہ بنا دیا ہے۔

نومبر 2024 میں، ایک معمولی طلبہ جھگڑے کو بہانہ بنا کر ہاسٹلز میں پولیس نے چھاپے مارے، طلبہ کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، گرفتاریاں ہوئیں، اور ادارے کو بند کر دیا گیا۔ جب دنیا کے ہر کونے میں میڈیکل کالج میں روزانہ کی بنیاد پر تھیوری اور پریکٹیکل چلتے ہیں، وہاں بلوچستان میں ڈاکٹرز بننے والوں کے ادارے کو سات مہینے سے زبردستی خاموش کر دیا گیا ہے۔


 بی ایم سی کا پرنسپل، اساتذہ، یا ایڈمنسٹریشن، سب وزارتی احکامات کے غلام ہیں۔ کوئی خود مختار فیصلہ نہیں کر سکتا۔ وزیرِ اعلیٰ اور وزیرِ صحت نے کالج کو تالے لگوا دیے، تاکہ کرپشن، ٹھیکے، اور اپنی مرضی کی اسکیمیں بغیر کسی رکاوٹ کے چلائی جا سکیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے تعلیمی ادارے نہیں، ذاتی جاگیر ہو گئی ہے، جہاں طلبہ کی نہیں، صرف مفادات کی حکمرانی ہے۔


پہلے کورونا وبا کی وجہ سے ایک سال ضائع ہوا۔ اب بی یم سی میں 5 کے بجائے 6 بیچ موجود ہیں، اور نیا بیچ اب تک داخل نہیں ہو سکا۔ پاکستان بھر میں میڈیکل کلاسز مکمل ہو رہی ہیں، لیکن بلوچستان میں طلبہ کی تعلیم ایک جمود کا شکار ہے۔ نااہل انتظامیہ اب تک میرٹ لسٹیں جاری نہیں کر سکی۔ کیا یہ سست روی نہیں بلکہ دانستہ غفلت ہے؟

جب بھی طلبہ بولتے ہیں، پولیس آتی ہے، لاٹھیاں چلتی ہیں، اور میڈیا پر الزام تراشی ہوتی ہے۔ لیکن جب ہاسٹلز کی مرمت کے نام پر کرپشن ہو، ٹھیکے دار مال بٹوریں، یا وزرا اپنی نااہلی چھپانے کے لیے ادارے بند کریں وہاں کوئی رٹ نہیں؟ کوئی تحقیقات نہیں؟ کوئی جواب دہی نہیں؟ کیونکہ یہاں بدماشیاں صرف تعلیم کے اداروں میں طلبہ پر چلتی ہیں۔


یہ سب کچھ ایک خوفناک حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے: کیا بلوچستان میں اعلیٰ تعلیم کو مستقل طور پر دفن کرنے کی سازش ہو رہی ہے؟ کیا ہم بولان میڈیکل کالج کو ہمیشہ کے لیے بند کر دینا چاہتے ہیں تاکہ نوجوانوں کی آواز، شعور اور ترقی کو روک دیا جائے؟

یہ صرف بولان میڈیکل کالج کی بات نہیں، یہ بلوچستان کی ہر نئی نسل کے خوابوں کو دفن کرنے کی سازش ہے۔ اگر ہم نے اب بھی آواز نہ اٹھائی تو کل شاید احتجاج کرنے کے لیے بھی کوئی تعلیم یافتہ نوجوان


باقی نہ بچے۔

Comments